خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور اور قریبی قبائلی اضلاع میں ایک بڑا جعلی شناختی کارڈ سکینڈل سامنے آیا ہے، جس میں افغان مہاجرین پر الزام ہے کہ وہ 1978 کی مہاجر پالیسی کا فائدہ اٹھا کر پاکستانی کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (سی این آئی سی) حاصل کر رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق ان افراد نے جعلی کاغذات جیسے پرانے شناختی کارڈ، جعلی ڈومیسائل، کرایہ داری کے معاہدے، ڈرائیونگ لائسنس اور اراضی کے جعلی کاغذات جمع کروائے۔ ماہرین کے مطابق کاغذات پر نیا کاغذ اور تازہ پرنٹ صاف بتاتا ہے کہ یہ دستاویزات جعلی ہیں۔
اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس جعلی شناختی کارڈ سکینڈل میں مبینہ طور پر بعض سرکاری اہلکار اور مقامی انتظامیہ بھی شامل ہیں، جو کاغذات کی جعلی تصدیق کے بعد ان درخواستوں کو منظور کرتے ہیں۔
شہری حلقوں نے مطالبہ کیا ہے کہ جمع شدہ کاغذات کا سائنسی اور فرانزک آڈٹ کیا جائے اور ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔
ادھر نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے یقین دہانی کرائی ہے کہ شناختی فراڈ روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ نادرا کے ترجمان سید شباحت علی کا کہنا ہے کہ پرانے شناختی کارڈز اور ان کے کاغذات کی تصدیق صوبائی حکومتوں کے تعاون سے کی جاتی ہے۔ انھوں نے عوام سے اپیل کی کہ مشکوک اندراجات کی اطلاع پاک آئی ڈی موبائل ایپلی کیشن کے ذریعے دیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ جعلی شناختی کارڈ سکینڈل پاکستان میں افغان مہاجرین کے انتظامی معاملات پر عوامی اعتماد کو مزید متاثر کر سکتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ملک پہلے ہی مہنگائی اور بارڈر مینجمنٹ کے مسائل سے دوچار ہے۔





