واپڈا نے مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے پن بجلی کے ٹیرف میں 5 روپے 45 پیسے فی یونٹ اضافے کی درخواست دی ہے۔ پین بجلی کے اوسط بنیادی نرخ کو 6 روپے 11 پیسے سے بڑھا کر 11 روپے 55 پیسے کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
نیپرا کو مالی سال 2023 میں 191 ارب روپے سے مالی سال 2026 میں 365 ارب روپے تک محصولات میں 91 فیصد اضافے کے لیے واپڈا کی پیٹیشن کی سخت جانچ پڑتال کرنی چاہیے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا یہ اضافہ واپڈا کی کارکردگی کو بہتر بنائے گا یا صارفین پر نااہلی کا بوجھ ڈالنے کی ایک اور کوشش ہے۔ اگر نیا ٹیرف منظور ہوتا ہے تو یہ بلک ہائیڈرو پاور ٹیرف 6 روپے 10 پیسے سے بڑھ کر تقریباً 11 روپے 55 پیسے فی یونٹ تک جا پہنچے گا۔
واپڈا نے اس اضافے کا جواز مالیاتی خلا کو کم کرنے، انتظامی اخراجات، فرسودگی کے چارجز، خالص ہائیڈل منافع اور گزشتہ تین برسوں سے سرمایہ کاری اور سرمائے پر تیزی سے بڑھتے ہوئے منافع پر مبنی وجوہات کو قرار دیا ہے۔ تاہم، یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا واقعی یہ وجوہات صارفین پر مزید بوجھ ڈالنے کے لیے کافی جواز فراہم کرتی ہیں؟
آنے والے جمعرات کو نیپرا کی سماعت میں ماہرین کے حق اور مخالفت میں دلائل سننا زیادہ بہتر رہ گا۔ تاہم یہ امر بھی اہم ہے کہ واپڈا کی آمدنی میں اضافے کی ضرورت کے اس قدر بڑے پیمانے پر جواز پیش کرنا آسان نہیں ہوگا۔ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی منصوبہ بندی، عمل درآمد اور انجینئرنگ کے ناقص معیار کے حوالے سے آڈیٹر جنرل کی تازہ ترین رپورٹ میں اٹھائے گئے سخت سوالات بھی واپڈا کے مؤقف کو کمزور کرتے ہیں۔
اس منصوبے کی ناکامی اور نقائص الٹا عوام پر بوجھ بنے اور بجلی بلوں میں نیلم جہلم سرچارج کے نام پر بھاری رقوم وصول کی گئیں۔ اس رقم کا بھی حساب لیا جانا چاہیے۔ ایسے میں آئندہ سماعت محض ٹیرف کے جائزے سے زیادہ ہونی چاہیے اور واپڈا کو نہ صرف مالیاتی بے ضابطگی اور گورننس بلکہ منصوبہ بندی، عمل درآمد اور انجینئرنگ کے خراب معیار کے لیے بھی جواب دہ بنایا جانا چاہیے۔
پہلے ہی توانائی کی اونچی قیمتوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے صارفین پر مزید بوجھ ڈالنا سراسر ناانصافی ہوگی۔





